.

      *سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمة کا ایک سبق آموز واقعہ*


 *رشحات قلم: محمد امثل حسین گلاب مصباحی*

 *فیض پور سیتامڑھی ٦ اکتوبر ٢٠٢١ء*


   *عموماً ایک آدمی خلاف دین باتوں پر، اپنے گھر میں ہو رہی برائیوں پر، یا خود کے غلط کاموں پر خاموش ہوجاتا ہے، یا ان کے رد و ابطال میں جی توڑ کوشش نہیں کرتا ہے، یا ان کی اصلاح کے لیے کوشاں نظر نہیں آتا ہے، مگر اپنے شیخ کے بارے میں کسی کتاب کے اندر غیر مناسب عبارت پالے، یا کسی کی زبان سے کچھ نا موافق بات سن لے، تو عام طور سے وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے، اور ایسا بے خود ہوجاتا ہے کہ بسا اوقات مخالف کے لیے سخت نازیبا کلمات اور نہایت قبیح بات استعمال کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا، کبھی کبھی تو لڑائی اور قطع تعلقات تک بات پہنچ جاتی ہے، اور جب تک رد و ابطال کر کے اگر چہ غیر شرعی طریقے پر ہو، دل کی بھڑاس بجھا نہ لے، چین کی نیند نہیں سوتا ہے اور جس کی شان میں نامناسب عبارت لکھی گئی یا نا موافق بات کہی گئی وہ بھی عموماً خاموش تماشائی بن کر اپنے قول و فعل سے اس کی حمایت کرتا ہوا نظر آتا ہے، پھر بات محدود گل و بلبل سے تجاوز کر کے تخریب نظم گلستاں تک پہنچ جاتی ہے۔ اس قسم کے لوگوں کو امام عشق و محبت مجدد دین و ملت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمة و الرضوان کے درج ذیل عمل اور واقعہ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ (ذیل میں جو واقعہ پیش کیا جارہا ہے وہ غالباً "امام احمد رضا اور تصوف" کے اندر مذکور ہے، یہ صدر العلما علامہ محمد احمد مصباحی حفظہ اللہ کی تصنیف ہے۔)*

    *سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمة کی بارگاہ میں ایک مرید معتقد حاضر تھے، ڈاک میں ایک گالیوں بھرا خط نکلا، وہ پڑھ کر آگ بگولا ہوگئے، پھر عرض کیا کہ یہ شخص میرے قریب کا رہنے والا ہے، اس پر مقدمہ دائر کر کے اسے سخت سے سخت سزا دلائی جائے، سیدی اعلی حضرت اندر سے بہت سے تعریفی و توصیفی خطوط لاکر ان کے سامنے رکھ دیے، وہ پڑھ کر پھولے نہ سمائے، پھر اعلی حضرت نے فرمایا کہ پہلے ان تعریف کرنے والوں کو انعام و اکرام سے مالا مال کر لیجیے، پھر گالی دینے والوں کو سزا دلائیے، اور جب محب کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو دشمن کو نقصان پہنچانے کی بھی فکر نہ کیجیے۔ رب قدیر سیدی اعلی حضرت کی تعلیمات پر ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق دے اور ان کی قبر پر رحمت و غفران کی موسلا دھار بارش برسائے آمین بجاہ النبی الکریم علیہ افضل الصلاة و التسلیم*